Alfia alima

Add To collaction

پوتر سیندور

پوتر سیندور
رامو اور اس کا خاندان اس وقت کیاری میں بھدئیں کا بیہن بیٹھا رہا تھا۔ اگست کی آخری تاریخیں تھیں، رات بھر خوب مینہ پڑا تھا۔ مٹی کی کچی دیواریں کٹ کٹ کر گر گئیں تھیں۔ پھونس کے چھپر بھیگ کر دوہرے ہوگئے تھے۔ گاؤں کے تالابوں، گڑھوں میں میلے، گندے پانی کی چادر اب بھی گر رہی تھی۔ مینڈھک خوشی سے بے قابو ہوکر بے سُری آوازوں میں الاپ رہے تھے۔ پوپھٹ رہی تھی، ہوا ذراتیز ہوگئی تھی۔ اس لیے پانی کا زور کم ہونے لگا تھا۔ کالے کالے بادل آگے والے مورچے پر چڑھائی کے لیے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ بجلی چمک چمک کر انھیں کوڑے لگا رہی تھی۔ اس کی روشنی میں رم جھم برسنے والی پانی کی بوندیں جگنو کی طرح چمک اٹھتیں۔ کبھی ایسا محسوس ہونے لگتا، جیسے آبِ رواں کے گہرے دھانی رنگے ہوئے ڈوپٹہ پر روپہلے ستاروں کی ایک گھنی ٹیڑھی لکیر ٹانک دی گئی ہے۔ 

یہی وجہ تو تھی کہ رامو، بیوی اور بہو اور بیٹی سمیت کیاری میں گھسا دھان ’’روپ‘‘ رہا تھا۔ رامو کی عمر کچھ ایسی زیادہ نہ تھی۔ یہی چالیس پچاس کے درمیان۔ لیکن اس کے اکثر دانت ٹوٹ گئے تھے۔ اس کے چہرے پر جھریاں پڑگئی تھیں۔ اور وہ دوہری ہڈی والا ہونے پر بھی کمر سے جھک گیا تھا۔اس کی سوکھی پنڈلیاں اور اسکی ننگی پیٹھ پر لمبے سفیدی مائل داغ اس بات کے گواہ تھے کہ وہ بھوکا بھی رکھا گیا ہے اور بیدوں سے مارا بھی گیا ہے۔ 

اس کی بیوی رجیا پینتیس چھتیس برس کی تھی۔ ناک نقشہ بھی اچھا نہ تھا۔ رنگ بھی کالا تھا۔ اس میں وہ کس بل بھی نہ تھا جو جوانی کی خصوصیت ہے۔ لیکن اس وقت حسب منشا کام کرنے کی امنگ سے اس کا عضو عضو پھڑک رہا تھا اور اس کی دھنسی دھنسی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ 

دس برس کی دھنیا ایک پنکھڑی تھی۔ مائل بہ سپاہی، گندمی رنگ، ناچتی ہوئی شربتی آنکھیں، بوٹا سا قد، دبلی پتلی لیکن اس میں بالکل ایک تتلی جیسی چلبلاہٹ تھی اور ایک نیل گوں بھونرے جیسی بھنبھناہٹ تھی اور گول مول بدھیا رامو کی بہو، یقینا جوان تھی لیکن بیوہ ہونے کی وجہ سے وہ تازگی کھوچکی تھی جو نئے سہاگن کی علامت ہے۔ اس کی قطع بالکل خاک پر پڑی ہوئی گولر کی تھی۔ اندر رس بھرا ہوا لیکن جلد میں نہ تو چمک نہ چکناہٹ۔ 

رامو نے سر پر ایک پگڑی باندھ رکھی تھی اور چھوٹی سی دھوتی کو رانوں تک چڑھا لیا تھا۔ عورتوں نے ساری کا آنچل لپیٹ لیا تھا۔ اور آگے چنے ہوئے حصے کو سمیٹ کر پیچھے کھونس لیا تھا۔ ان کی بھری اور سوکھی پنڈلیاں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ان کے ہاتھ کہنیوں تک کیچڑ میں اڑے ہوئے تھے۔ راموں آدھے سے زیادہ کھیت میں ہل چلا چکا تھا۔ پانی زمین کے چاک کو گویا مرہم لگاکر برابر کرتا جارہا تھا۔ رجیّا اور بدھیا اپنی مٹھی کا بیہن کھیت کی مٹی میں منتقل کرنےکے لیے تیار کھڑی تھیں۔ یہاں یہ سوکھ جاتا وہاں وہ بڑھے گا پھلے گا، کٹے گا، کوٹا جائے گا، اور پھر چاول بن کر ہزاروں انسانوں کے پیٹ بھرے گا۔ کتنا قاتل ہے ہمارا ہاتھ اور کتنی زندگی بخشنے والی ہے یہ حقیرمٹی۔ 

بیہن مینڈھ پر رکھا تھا، چھوٹی دھنیا بھی کھڑی تھی کہ دوڑ کر جائے اور اسے لاکر ماں اور بھوجی کے ہاتھوں تک پہنچا آئے۔ وہ اس درمیان میں مڑ مڑ کر بھی دیکھ لیتی کہ چار برس کا بھتیجا کمل کی تہوں میں چھپا اور تاڑ کے پتوں سےڈھکا اب بھی سو رہا ہے کہ نہیں۔ 

آج پورا گھر کھیت پر تھا۔ وہ گھر میں کیسے اکیلا چھوڑ دیا جاتا۔ پھر وہی تو اس کھیت کھلیان کا ہونے والا وارث تھا۔ اسکو تو اسی کیچڑ، مٹی اور پانی میں پوری زندگی بتانا تھی۔ 

دفعتاً سورج کی سنہری تھالی کا ایک ٹکڑا پورب میں جھنکا۔ رات کی کالی ساری پر سنہری لیس ٹکی۔ پورا کھیت سنہری رنگ میں نہا گیا۔ اور ناگوری بیلوں کے کندھوں پر لگی ہوئی زردی نئے کنگن کی طرح جگمگا اٹھی۔ رامو ذرا سا مسکرادیا۔ پگڑی ٹیڑھی کرکے اس نے بیوی کو دیکھا وار ہلکے ہلکے جھوم کر للکارا۔ 

’’دھنیا کی ماں! سو رہی ہو کیا۔ اب سُرو (شروع) کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ 

جھکی ہوئی رجیّا تن کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے ہاتھ چمکا کر کہا ’’تم سے کُھد (خود) کام ہوتا نہیں اور الجام دیتے ہو دوسروں کو۔ تم کھیت سے بیل نکالو۔‘‘ 

رامو نے کہا ’’ارے تم اِدھر سُرو (شروع) کرونا۔ میں جو باکی ہے وہ ابھی کھتم کیے دیتا ہوں۔‘‘ اس نے بیلوں کی دُم اینٹھی۔ ’’آؤ رے بیٹو! ساباس!‘‘ اور بیل تیز چلنے لگے۔ بیل کے چلنے کی وجہ سے پانی میں ’’ہڑبڑ، ہڑ بڑ‘‘ کی آواز دھنیا کا چھپ چھپ دوڑنا، راموں کا بیلوں کو بار بار چمکارنا، للکارنا۔ رجیا کا میاں کے مقابلہ میں جلدی کرنے سے دم پھولنا، ان بڈھوں کے بالک پن پر بدھیا کی کھل کھلاہٹ ہلکا ہلکا مینھ، ٹھنڈی ہوا، اور ایسے میں تاریکی کو ہٹاتی، دبے پاؤں آتی ہوئی روشنی، پھر مینڈھ پر ڈھیر ’’بیہن‘‘ کا سبزہ دار لہکنا اور دور کے بھیگے ہوئے درختوں پر چڑیوں کا چہچہانا، ایک عجیب دلکش منظر تھا۔ راموں اس قدر خوش تھا کہ وہ دل ہی دل میں ایک دیہاتی گیت گانے لگا ۔ اتنے میں بدھیا نے ہارتی ہوئی ساس کی دلدہی کے لیے کہا ’’ارے کاہے ہلکان ہو کاکی۔ جلدی کاہے کی ہے! اب تو اپنا ہی کھیت ہے۔‘‘ 

اور رامو کو وہ زمانہ یاد آگیا جب کھیت اپنا نہ تھا۔ ۱۹۴۲ء میں جون کا مہینہ تھا کہ زمیندار نے کہا ’’دھان کی کیاریاں چھوڑ دو۔ مہندر ہمیں نذر بھی دے رہا ہے اور تم سے دگنا لگان بھی۔ اب یہ کیاریاں وہی جوتے گا۔‘‘ رامو نے خوشامد کی گڑگڑایا، وہ اکڑتے ہی چلے گئے۔ آخر اسے بھی غصہ آگیا۔ اس نے کہا، 

’’باپ دادا کے سمے سے یہ کیاریاں ہماری دخیل کاری میں ہیں۔ ہم پر کبھی لگان باقی نہ رہا۔ آپ اسے ہم سے نکال نہیں سکتے۔‘‘ وہ ان کی گالیاں اور گھڑکیاں سُن کر گھر چلا آیا۔ لیکن رات بھر یہ سوچتا رہا کہ کیا صورت ہو کہ برسات سے پہلے ہی وہ کھیتوں پر ہل چڑھادے۔ اتفاق سے ایسا ہوا کہ یا تو کہیں دور دوربادل کا نام نہ تھا یا دفعتاً بارہ بجے رات کو ہوا چلی اور اتر سے گھر کر گھٹائیں آئیں۔ تین گھنٹے اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر پانی برسا کہ سارے میں جل تھل ہو گیا۔ رامو نے مینھ رکتے ہی بیٹے، بیوی، بہو، بیٹی، سب کو ساتھ لیا۔ اور اسی وقت پانی سے بھری کیاریوں میں ہل چلایا اور دھان چھڑک دیا۔ یہ سارے کام اس پھرتی سے کیے گئے کہ صبح کے دھندلکے سے پہلے ہی سارا کنبہ گھر پلٹ کر آرام سے لیٹ رہا۔ 

صبح کو جب زمیندار کو خبر ہوئی تو وہ بہت جزبز ہوئے۔ انہوں نے مہندر سے کہا کہ وہ جاکر کھیت پلٹا دے۔ وہ اپنا پورا جھتا ساتھ لے کر آیا۔ لیکن دوسرے کسانوں نے لعنت ملامت کی او روہ اس وقت گاؤں والوں کا پاس کرکے واپس چلا گیا۔ لیکن دس ہی دن بعد جب دھان کے پودوں نے پتلی پتلی گردنیں نکال کرایک زمردیں فرش سے ڈھک دیا تو مہندر اور اسکے ساتھیوں نے ساری کیاریوں میں مویشی ڈال کر انھیں کچلوا اور چروا ڈالا۔ وہ صبح بھی کتنی غم آلود تھی جب ایک پڑوسی نے رامو کو جھنجھوڑ کر جگایا اور یہ سنانی سنائی کہ اس کی ساری کیاریاں برباد ہوگئیں اور اس کی محنت پر پانی پھر گیا۔ اس کے بیٹے رام پرشاد کی تو یہ حالت تھی کہ وہ غصے سے اپنی بوٹیاں نوچتا اور بار بار لاٹھی اٹھا کر کہتا ’’آج میں مہندر کو مار ڈالوں گا، اس نے ہماری روزی ہم سے چھین لی۔‘‘ 

رامو نے بڑی مشکل سے اسے روکا تھا اور اسے ساتھ لے کر شہر کی طرف چلا تھا کہ تھانے میں رپٹ لکھوائے گا، کچہری میں دعویٰ کرے گا ۔ اور راستے ہی میں خبر ملی کہ مہاتما جی رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح پکڑ لیے گئے اور سارے نیتا ایک ایک کر کے قید کرلیے گئے۔ رام پرشاد اور رامو قومی غم و غصہ میں نجی غم و غصہ بھی بھول گئے۔ سب کے ساتھ وہ بھی سوچنے لگے کہ ’’ہتیارے انگریز‘‘ باتوں سے نہیں مانیں گے۔ ان کو لاٹھی ہی درست کر سکتی ہے۔ ان سے حکومت زبردستی چھیننا پڑے گی۔ خبر دینے والا ایک مجمع تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ سب پاس والی تحصیل پر قبضہ کرنے اور ظالم تھانیدار کو گرفتا رکرنے جارہے ہیں۔ رامو اکیلا ہوتا تو شاید اس طرح کی دہشت انگیزی میں حصہ لینے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ لیکن جوان بیٹا بھی ساتھ تھا۔ آج صبح سے وہ مارنے مرنے پر تُلا تھا۔ اس کو کیسے اکیلا چھوڑا جا سکتا تھا۔ وہ بھی بھیڑ کے ساتھ بہہ گیا۔ وہاں تھانیدار کو پہلے ہی خبر مل گئی تھی۔ اس نے تھانے کی چھت پر اور خفیہ کمین گاہوں میں مسلح سپاہی بٹھارکھے تھے۔ مجمع کے تیور دیکھتے ہی اس نے گولیوں کی بارش کردی۔ پانچ سات تو وہیں ٹھنڈے ہوگئے اور بیسیوں زخمی ہوکر تڑپنے لگے۔ ان لوگوں میں سے جو پہلے گولی کا نشانہ بنے، رام پرشاد بھی تھا۔ رامو اسے تڑپتا اور کراہتا ہوا کندھے پر لاد کر جلدی سے بغل والے کھیت میں بھاگا۔ امید تھی کہ زخم شاید کاری نہ لگا ہو، لیکن جب اس نے اپنے بیٹے کو زمین پر لٹایا تو وہ مر چکا تھا۔ رامو کی آنکھوں میں ساری دنیا تاریک ہوگئی۔ وہ جس سے اس کا خاندان چلنے والا تھا، وہ جسے اس نے غربت میں ہزاروں دکھ سہہ کر پروان چڑھایا تھا، وہ جس سے اس کی مستقبل کی ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ یوں چشم زدن میں جان توڑ دے اور وہ کچھ نہ کرسکے۔ پھر وہ اپنی بیوی، اس کی ماں کو کیا جواب دے گا؟ وہ اپنی بہو، اس کی جوان بیوہ کو، کیسے منھ دکھائے گا؟ 

گولی چل رہی تھی، مجمع ڈھیلے پھینک رہا تھا۔ گالیاں دے رہا تھا۔ تھانے پر چھڑکنے کے لیے مٹی کے تیل کا انتظام کر رہا تھا۔ شور تھا، چیخ تھی، کراہ تھی، لیکن رامو ایک بُت کی طرح بیٹے کی لاش کے سرہانے بیٹھا رہا ۔ پھر وہ ایک بار اٹھا، اس نے رام پرشاد کی لاش پھر کندھے پر لادی اور لاٹھی ٹیکتا ہوا دریا کی طرف چلا۔ گنگا تھانے کی پشت پر دوفرلانگ کے فاصلے پر بہہ رہی تھی۔ وہ ہانپتا ہوا یہ قیمتی بوجھ کنارے لایا۔ چاروں طرف نظر ڈالی، کہیں سوکھی لکڑی نظر نہ آئی۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر ’’ماتا‘‘ کو سلام کیا، لڑکے کی پیشانی چومی اور اسے گنگا کی گود میں دیدیا۔ 

وہ پہلے تو آہستہ آہستہ تھانے کی طرف چلا،اس کا بیساختہ جی چاہتا تھا کہ وہ بھی کسی طرح خون میں رنگ جائے، شاید کھویا ہوا رام پرشاد اسی صورت میں مل سکے گا، مگر دفعتاً اسے بیوی اور بہو یاد آئی۔ دونوں منتظر ہوں گی، دونوں دیر ہوجانے سے پریشان ہوں گی۔ دونوں کچہری تھانے سے ڈرتی ہیں۔ نہ جانے کیا کیا سوچتی ہوں گی۔ ان تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔ بیٹے کی جان تو گئی ہی، ان سب کو ہلاکت میں ڈال دینا کسی طرح مناسب نہ ہوگا ۔ اس لیے وہ گاؤں کی طرف پلٹ پڑا۔ 

اندھیرا ہوگیا تھا۔ رات کا سناٹا آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تھا، بس کبھی کبھی گولی دغنے اور خانہ ساز پٹاخوں کے چھوٹنے کی آوازیں آتیں۔ کبھی کبھی کسی بڑی تیز چیخ کی، جیسے کوئی کڑیل جوان تڑپ تڑپ کر جان دے رہا ہو۔ وہ کانپ اٹھتا تھا۔ اس کی کنپٹیاں دھمکنےلگتی تھیں۔ اس کے ہاتھ پسیج جاتے تھے، مگر وہ نہ تو ٹھٹکتا تھانہ پلٹ کر دیکھتا تھا۔ وہ تو سنانی سُنانے جا رہا تھا۔ وہ تو سب کچھ کھوکر آرہا تھا۔ اس کی امیدوں کے سارے رشتے ٹوٹ چکے تھے، اب وہ کیوں مڑتا، کس پیچھے آنے والے کا انتظار کرتا۔ 

رات کے دس بجے جب اس نے اپنے جھونپڑے میں بیوی اور بہو کو خبر سنائی تو سارا گاؤں ان کی چیخ سے گونج اٹھا۔ سب اپنے بستر چھوڑ کر دوڑ پڑے۔ یہاں تک کہ زمیندار کا کارندہ بھی پوچھنے آیا کہ کیا بات ہے۔ جس نے سنا اس نے آہ بھری۔ ہر ایک انگریزوں کو کوسنے اور گالیاں دینے لگا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ رام پرشاد کے مارے جانے سے کسی پر خوف طاری نہ ہوا بلکہ ہر شخص غصے سے پیچ و تاب کھانے لگا۔ رامو تو برابر بیوی اور بہو کو سنبھالنے میں لگا رہا۔ لیکن ایک ہفتہ تک گاؤں کے محتلف نوجوان، تھانوں اور تحصیلوں کے حملوں میں حصہ لیتے رہے، مہندر کے گروہ نے اس موقعہ سے بھی فائدہ اٹھایا، اس نے اوڑیہاڑ کے پاس مال گاڑی کے کئی ڈبے لوٹ لیے اور گاؤں میں کئی دن نئے نئے موزوں، رومالوں، بنیانوں کی خاصی طور پر بہار رہی۔ ٹھاکر صاحب گھر پر نوکروں کا پہرا بیٹھا کر بیوی بچوں کو لے کر شہر چلے گئے تھے۔ اب کوئی حاکم نہ تھا، اس لیے نوجوانوں کا راج تھا۔ 

کوئی دس دن بعد خبر ملی کہ گوروں کی پلٹنیں آگئی ہیں اور ایک بڑا ہی ظالم انگریز افسر بھیجا گیا ہے۔ وہ ہر طرف گولیاں چلاتا، کوڑے مارتا اور آگ لگاتا جاتا ہے۔ قصوروار اور بے قصور دونوں کو یکساں موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔ بنیائنیں ، موزے اور لوٹی ہوئی چیزیں آہستہ آہستہ غائب ہونے لگیں اور ہرشخص اپنی اپنی جان بچانے کی سوچنے لگا۔ پندرھویں دن دولاریوں میں لدے لوئے سچ مچ انگریز آپہنچے اور ان کے پیچھے پیچھے ایک موٹر میں ڈپٹی صاحب اور گاؤں کے زمیندار ٹھاکر رام پال سنگھ۔ 

گوروں نے گھر گھر تلاشی لے ڈالی۔ چیزیں پہلے ہی ہٹادی گئی تھیں۔ یا کنوؤں تالابوں میں پھینک دی گئی تھیں یا زمین میں بہت گہری گاڑ دی گئی تھیں۔ کچھ نہ ملا۔ ٹھاکر صاحب نے سب کی سفارش بھی کی، صفائی بھی دی۔ لیکن رامو سے تو خفا تھے ہی۔ رام پرشاد کے مارے جانے کا قصہ نمک مرچ لگاکر بیان کردیا۔ رامو پکڑا گیا، پیٹا گیا۔ گوروں نے ٹھوکریں مار مار کر رجیا، بدھیا اور دھنیا کو بے حال کردیا۔ پھر ان کو چھپر سے کھینچ کر باہر نکالا اور اس میں آگ لگادی۔ تھانے میں پھر رامو پر خوب بید پڑے۔ پولیس والے چاہتے تھے وہ ان لوگوں کا نام بتادے جو تھانے اور تحصیل کے حملے میں شریک تھے۔ رامو نے سارے ظلم خاموشی سے برداشت کرلیے لیکن کسی کا نام نہ لیا۔ اسے سات برس کی سزا ہوگئی اور وہ نینی جیل کے اسپتال میں پورے پانچ مہینے پڑا رہا۔ جب کہیں جاکر اس قابل ہوا کہ آہستہ آہستہ چل کر چھوٹے موٹے کام کرسکے۔ 

اس درمیان میں ضلع کے اور بہت سے لوگ پکڑ کر آئے۔ نیتا بھی چھوٹے چھوٹے کانگریسی بھی، سچ مچ کے بدمعاش بھی، بے قصور نیک چلن بھی۔ اسے ان کی زبانی بہت سے حالات معلوم ہوئے۔ انگریزی فوج نے کیسے کیسے ظلم توڑے اور ہندوستانی سپاہیوں نے کس کس طرح ہاتھ صاف کیے، لیکن کسی سے یہ نہ معلوم ہوسکا کہ رجیا پر کیا گزری، بدھیا کے جو بچہ ہونے والا تھا وہ لڑکا ہوا یا لڑکی اور دھنیا اب کتنی شریر ہوگئی ہے۔ اسی طرح ایک سال گزرا، دو سال گزرے۔ تیسرا سال بیتا، چوتھا سال آیا اور خبر آئی کہ نیتاجی چھوڑ دیے گئے۔ پھر خبر آئی الیکشن ہو رہا ہے۔ پھر خبر آئی، اپنی قومی حکومت ہوگئی۔ 

۱۹۴۷ء کی جنوری میں رامو چھوٹا۔ وہ ریل سے اتر کر گاؤں کی طرف چلا تو یہی سوچتا رہا کہ جاتا تو ہوں مگر وہاں کیا ملے گا اور ہوا بھی یہی۔ جب گاؤں پہنچا تو دیکھا، اس کے چھپر کی جگہ ایک مٹی کا ٹیلا ہے اور نہ رجیا ہے نہ دھنیا۔ معلوم ہوا اس نے بدھیا کو میکے بھیج دیا اور خود بھی بھائی کے پاس دوسرے گاؤں میں ہے۔ رامو صرف چند گھنٹے گاؤں میں ٹھہرا۔ وہ پلٹ کر شہر کے کانگریس منڈل میں چلا آیا۔ منتری سے نینی جیل میں ملاقات ہو چکی تھی۔ انھوں نے بری ہمدردی کی۔ کلکٹر سے ٹھاکر صاحب پر زور ڈلوایا، رامو کی کیاریاں اسے واپس دلائیں، بلکہ دس بیگھے اوپر سے۔ سرکار کی طرف سے ایک ہزار معاوضہ بھی دلوایا۔ 

رامو نے رجیا کو بلوایا۔ بُدھیا کو جاکر لے آیا، وہ آئی تو ساڑھے تین سال کا منوہر بھی آیا۔ عجیب بات تھی وہی رامو جو رام پرشاد کے مرنے پر نہ رویا تھا، جو اٹھارہ سال کی کمائی کو اپنے ہاتھ سے گنگا میں بہا دینے پر اشک بار نہ ہوا تھا، جس نے بید کھانے، بے گھر ہونے اور قید کیے جانے پر آنسو نہ بہائے تھے، جب اس نے پہلی بار پوتے کو دیکھا تو اس بھولے کے مسکرادینے پر اس طرح رویا کہ جیسے پوتے پر آنکھ پڑتے ہی ساری بربادیاں ایک ایک کرکے سامنے آتی چلی گئیں۔ 

آج اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں مرچیں سی لگنے لگیں، وہ ٹھٹک کر آنکھ صاف کرنے لگا۔ رجیا نے جھک کر گیلی مٹی اٹھائی اور اس کو میاں کی ننگی پیٹھ پر کھینچ مارا۔ 

’’کیا کھڑے سو رہے ہو۔‘‘ 

بدھیا ہنستی ہوئی منڈیر کی طرف لپکی، جدھر منوہر تاڑ کے پتے کے نیچے سے جھانک کر پکار رہا تھا ’’ماتا! ماتا جی!‘‘ 

اور بوڑھا رامو بیلوں کو چھوڑ کر کیچڑ میں بھرپور قدم رکھتا ہوا وہاں آیا جہاں رجیا کھڑی ہوئی اسے تک رہی تھی۔ رامو نے ہاتھ کی گیلی مٹی رگڑ کر چھڑائی اور اس کا چورا بیوی کی مانگ میں بھر دیا۔ 

وہ کچھ لجائی، شرمائی، کچھ جھنجھلائی۔ اس نے کہا ’’یہ کیا میرے سر بھر میں مٹی پوت دی۔‘‘ 

رامو نے ہنس کر کہا ’’ارے مورکھ! اس سے پوتر اور کون سیندور ہوگا؟ یہ اپنے کھیت اپنے دیش کی مٹی ہے!‘‘ اور رجیا کے جھکے ہوئے سر کی مانگ اس طرح چمکنے لگی جیسے وہ سچ مچ افشاں اور صندل سے بھری ہو۔ 

   1
0 Comments